کریڈٹ کارڈ....صارفین کو کنگال کرنے کا سودی ویہود ی پھندا
آپ میں سے اکثر بھائی اور بہنیں کریڈٹ کارڈکے نام سے واقف ہوں گے خاص طور پر ہمارا ملازمت پیشہ طبقہ تو لازماً جانتا ہوگاکہ یہ کیا بلا ہے اور کیسے لوگوں کو اپنے جال میں پھانستا ہے لیکن پھربھی بہت سے لوگ اس سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں‘ اس لئے وہ بے دھیانی میںہی اس یہودی طلسمی جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آج میں آپ کا تعارف یہودیوں کے پھیلائے ہوئے اس طلسمی سودی پھندے سے کرواتا ہوں۔ کریڈٹ کارڈ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ‘ قرضے کی ایک قسم ہے۔ اکاﺅنٹنگ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ کاروبار میں کریڈٹ کا لفظ ادھار یا قرضے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اردو میں اپنا حساب رکھنے والے لوگ دو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں یعنی نام اور جمع ۔ نام وہ رقم ہوتی ہے جو انہوں نے کسی سے بھی وصول کرنا ہوتی ہے اور جمع وہ رقم ہوتی ہے جو انہوں نے کسی کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ انگریزی میں اگر ان اصطلاحات کا ترجمہ کیا جائے تو یہ ڈیبٹ اور کریڈٹ بنتا ہے یعنی کریڈٹ وہ رقم ہوتی ہے جو واجب الادا ہوتی ہے۔ اب ذرا کریڈٹ کارڈ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر قرضے کی ایک شکل ہوتی ہے جو بینک بغیر کسی شخصی ضمانت کے آپ کو دے دیتا ہے خاص طور پر اگر آپ ملازمت پیشہ ہیں تو پھر صرف آپ کی ملازمت اور آمدنی کاثبوت آپ سے مانگتا ہے اور آپ کو ایک خاص حد تک قرضہ جاری کردیتا ہے۔ یہ خاص حد عام طور پر آپ کی تنخواہ کا تین سے چار گنا تک ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ آپ کو ایک کارڈ جاری کردیتاہے جسے کریڈٹ کارڈ کہتے ہیں اور اب اس کارڈ کے ذریعے آپ اس خاص حد تک جو آپ کو جاری کی گئی ہے ‘ اس رقم کا مالک بن گئے ہیں اب آپ اس کارڈ کے ذریعے مختلف جگہوں پر خریداری بھی کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہوٹل‘ میڈیکل سٹور‘ پٹرول پمپ الغرض تقریباً ہر قسم کی خریداری آپ کر سکتے ہیں لیکن صرف ان مخصوص بڑی دکانوں سے جہاں پر یہ سہولت موجود ہوتی ہے۔ اس سہولت کے بارے میں ان دکانوں نے سٹیکر لگائے ہوئے ہوتے ہیں کہ یہاں پر کریڈٹ کارڈکی سہولت موجودہے لہٰذا آپ وہاں جاتے ہیں اور جاکر مزے سے خریداری کرتے ہیں اور اپنا کارڈ چارج کروا دیتے ہیں۔ رقم آپ کو ادا نہیں کرنا پڑتی بلکہ آپ کی جگہ بینک یہ رقم اس دکاندار کو ادا کردیتاہے اور آپ بینک کی اس خرچ کی گئی رقم کی حد تک مقروض ہوجاتے ہیں جس کے لئے بعد میں آپ کو بینک کی طرف سے اسی رقم کا بل موصول ہوتا ہے اور آپ اس کی ادائیگی مقررہ وقت میں کرکے یہ قرض ادا کر سکتے ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب اس میں کیا قباحت ہے یہ تو ایک اچھی سہولت ہے جو بینک نے بالکل مفت فراہم کرنا شروع کردی ہے جبکہ پہلے اس کی سالانہ دو ہزار تک فیس ہوتی تھی۔ محترم یہی تو وہ پھندا اور دھوکہ ہے جس میں یہ یہودی ایجنٹ ہم سب مسلمانوں کو پھنسا رہے ہیں۔ پہلے پہل اس کی فیس ہوتی تھی اور شرائط بھی کافی سخت ہوتی تھیں جس کی وجہ سے کافی امیرلوگ یہ کارڈ بنواتے تھے لیکن جب سے یہ بالکل فری ہوا ہے‘ اب ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ یار چلو بنوا لیتے ہیں۔ کونساپیسے دینے ہیں او رپیسے تو تب دینے پڑیں گے نا جب استعمال کریں گے اور وہ بھی اگر مقررہ مدت میں ادا کردیں گے تو صرف اتنی ہی رقم ادا کرنا پڑے گی جتنی استعمال کی ہوگی‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ صرف چندایک مستثنیات کے علاوہ ہر جگہ پہ جب آپ ادائیگی اس کارڈکے ذریعے کرتے ہیں تو آپ کو اڑھائی فیصدادائیگی زیادہ کرنا پڑتی ہے جو کہ آپ کے اس کارڈ پر چارج ہوتی ہے۔ فرض کریں آپ نے میڈیکل سٹور سے ایک ہزار کی ادویہ خریدیں تو آپ کو بینک سے جو بل آئے گا وہ ایک ہزار پچیس روپے کا ہوگا جو آپ کو مقررہ مدت کے اندر ادا کرنا ہوگا اور اس مدت میں ادا نہ کرنے کی صورت میںبینک کا میٹر چالو ہوجائے گا۔ اب غیر ادا شدہ رقم پر سود لگنا شروع ہوجائے گا جس کی شرح 36% سالانہ بنتی ہے یعنی 3% ماہانہ اور اس سود کو سود کہنے کی بجائے بینک سروس چارجز کے نام سے متعارف کرواتاہے تاکہ لوگ دھوکے میں رہیں۔ جن چند مستثنیات کا میں نے اوپرذکر کیا ہے وہ یہ ہیں‘ پیٹرول اور ہوٹل پر کھانا۔ باقی تمام اشیاءکی خریداری پر یہ اڑھائی فیصد بلکہ کچھ بینک تو تین فیصد بھی چارج کرتے ہیں۔ محترم قارئین اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے تو پھر کیا ہوا‘ یہ تو بینک کا حق ہے کہ اگر وہ اتنی سہولت دے رہا ہے تو وہ فیس بھی چارج کر سکتا ہے کیونکہ ہمیںبھی تو رقم ادا کرنے میں کچھ مہلت مل رہی ہے اور اس مہلت میں ادا کرنے پر ہمیں کچھ سود نہیں ادا کرنا پڑتا‘ صرف سروس چارجز دینے پڑتے ہیں ‘اب میں اس مہلت پر ذرا روشنی ڈالتا ہوں۔ یہ مہلت آپ کو بل وصول ہونے کے بعد تقریباً 12 سے 14 دن تک ہوتی ہے لیکن آخری تاریخ سے کم از کم تین ورکنگ دن پہلے آپ کو لازماً ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مہلت تقریباً 12 دن بنتی ہے اور بعض دفعہ بلکہ اکثر اوقات آپ کو بل ملنے میں چار سے پانچ دن کی تاخیر ہوجاتی ہے لہٰذ ایہ مہلت کم ہوکر صرف آٹھ دن رہ جاتی ہے اور اس میں سے بھی چھٹیاں کم کرلیں تو آپ خود اس مہلت کی سہولت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس کے لئے آپ اڑھائی سے تین فیصد زیادہ ادائیگی کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف یعنی فرض کرلیا کہ یہ بینک کا حق ہے۔ آپ کو سہولت ملی ا س لئے تھوڑے پیسے زیادہ بھی دینے پڑے تو کوئی بات نہیں اس کے علاوہ وقت پر ادائیگی کرنے سے مزید کچھ اضافی پیسہ نہیں دینا پڑتا۔ تو محترم قارئین‘ آپ خود سوچیں کہ ایک نوکری
___ پیشہ شخص جس کو ہر مہینے لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے‘ اس نے جب بھی کوئی چیز خریدنی ہوتی ہے تو وہ اپنے بجٹ کے مطابق ہی اس کا فیصلہ کرتاہے ۔اگر بجٹ اجازت نہ دے تو وہ کئی قسم کی خریداریوں کو ایک ماہ دو ماہ یا اس سے بھی زیادہ موخر کردیتا ہے۔ لیکن اب سوچئے کہ تیس ہزار روپے خرچ کرنے کی سہولت کریڈٹ کارڈ کی صورت میں موجود ہے تو کیا آپ اپنی خریداری موخر کردیں گے؟ کبھی نہیں کریں گے کیونکہ یہ کارڈ اپنے نام بینک سے جاری کرواتے ہی شیطان کے کارندے مسلسل آپ کے پیچھے لگ جائیں گے اور ہر طرح کی غیر ضروری چیزوں کو آپ کے سامنے انتہائی ضروری اور مجبوری بنا کر پیش کریں گے۔ اب آپ کے پاس سہولت بھی ہوگی تو آپ لازماً اس سہولت سے یہ سوچ کر فائدہ اٹھائیں گے کہ اس کا بل تو تقریباً ایک ماہ کے بعد آئے گا پھر مزید پندرہ دن ادائیگی کے لئے ہوں گے لہٰذا ابھی ضرورت پوری کر لیتا ہوں اور اگلے ماہ کی تنخواہ سے یہ رقم مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کروں گا اور مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ بس یہاں سے ہی بربادی شروع اور آمدنی میں سے برکت ختم۔ فرض کیجئے آپ نے انتہائی ضرورت کے تحت )حالانکہ یہ ضرورت بھی شیطان کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہے( پانچ ہزار روپے اپنی مقررہ حد میں سے استعمال کرلئے اب جب اگلی تنخواہ ملے گی جو دس ہزار ہوگی آپ اس میں سے پانچ ہزار کیسے نکالیں گے؟ لازماً آپ کو ایک بہت سہل اور حسین صورت نظر آئے گی جو بل پر لکھی ہوگی کہ آپپہلی قسط کی صورت میں صرف کم سے کم ادائیگی کردیں اور بقایا رقم اگلے ماہ ادا کردیجئے گا۔ یہ کم سے کم رقم کل ادا شدہ رقم کا 10 فیصد ہوتی ہے۔ لیجئے آپ نے خوشی خوشی پانچ سو روپے ادا کئے اور شکر ادا کیاکہ مطلوبہ چیز بھی آگئی اور رقم بھی قسطوں میں اداکرنی پڑے گی۔ اب اگلے ماہ کا بل جب آئے گا تو اس میں تین فیصد کی شرح سے سود بھی ساتھ لگ جائے گا جو پوری استعمال شدہ رقم پر۔ ہوگا نہ کہ غیر ادا شدہ رقم پر‘ اب یہ شیطانی چرخہ چل پڑا ہے اور آپ ہر ماہ اپنی حق حلال کی کمائی سے سودکی شکل میں ادائیگی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس پر ہی بس نہیں بلکہ آپ اب ہر ماہ غیر ضروری خریداری بھی لازماً کریں گے اور کرتے کرتے اپنی جاری کردہ قرضے کی رقم کی آخری حد تک پہنچ جائیں گے۔ اب یہ یہودی ایجنٹ نیا جال پھیلائیں گے اور آپ کو ایک دوسرے بینک سے فون آئے گا کہ جناب آپ کوئی کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہے ہیں؟ آپ کہیں گے کہ جی ہاں! پھر یہ پوچھیں گے کہ آپ کی کریڈٹ کی مدت کیا ہے؟ آپ بتائیں گے کہ تیس ہزار۔ تویہ کہیں گے آپ نے پوری لمٹ )Limit( استعمال کی ہوئی ہے؟۔ آپ کا جو اب ظاہر ہے اثبات میں ہوگا۔ اب یہ آپ کو آفر کرے گا کہ آپ ہمارے بینک سے بھی کارڈ بنوالیں۔ ہم آپ کو لمٹ بھی زیادہ دیں گے سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں پر آپ تین فیصد ماہانہ کے حساب سے سود ادا کر رہے ہیں۔ آپ اپنی وہ ساری غیر ادا شدہ رقم ہمارے کارڈ پر ٹرانسفر کردیں گے جو کہ ایک فون کال کے ذریعے ہوجائے گا تو آپ کو ڈیڑھ فیصد ماہانہ سود ادا کرنا پڑے گا اور اگر آپ چاہیں گے توآپ کی فکس قسطیں بھی بنادی جائیں گی۔ آپ تو پہلے ہی اس مسئلے کی وجہ سے پریشان تھے۔ آپ نے فوراً سوچا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کارڈ بھی فری مل رہا ہے اور سود بھی تقریبا ًآدھا ہوجائے گا یہ تو بڑا نیک کام بھی ہوجائے گا۔ لازماً یہ جو میں نے رات کو اللہ سے توبہ کی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرا یہ سودی قرض ادا کروادے میں آئندہ ایسانہیں کروں گا تو یہ اللہ کی طرف سے امداد ہے۔ لہٰذا مجھے فوراً یہ نیا کارڈ بنوا کررقم ادھر ٹرانسفر کردینی چاہئے۔ میرے بھائیو اور بہنو! یہ ہرگز اللہ کی طرف سے امداد نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو آپ نے پہلے ہی اعلان جنگ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو شیطان لعین کا ایک اور وار ہوتا ہے۔ آپ اسے اللہ کی آزمائش بھی کہہ سکتے ہیں‘یعنی اگر آپ واقعی اس چکر سے بچنا چاہتے ہیںاور اللہ سے دعا کرتے ہیں اس چکر سے نکلنے کے لئے جبکہ ایک نیا کارڈ بنوا کر اس چکر میں مزید پھنستے جاتے ہیں ‘ چاہئے تو یہ کہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ویسے ہی کوئی سبب پیدا کردے تاکہ آپ اس سودی نظام سے نکل سکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان ظاہری اسباب کا محتاج نہیں ہوتا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی ایک نیا کارڈ بنوا کر نیکی کا کام کرنے کی۔ اب آپ نے نیا کارڈ بنوایا اور اپنی تمام غیر ادا شدہ رقم دوسرے کارڈ سے اس پر منتقل کردی اور آپ بہت خوش ہوگئے کہ اللہ نے اچھاانتظام کردیا ہے۔ اب آپ کا سابقہ کارڈ پھر سے خالی ہوگیا اور استعمال کے لئے دستیاب ہے۔ پھرشیطان نے اپنا جال پھیلانا شروع کردیا اور آپ کو وہ ضرورتیں بھی بھی یاد آنا شروع ہوگئیں جو کبھی کی دبی ہوئی تھیں۔ فرض کیجئے کہ ایسا نہیںہے اور آپ نے تمام غیر ضروری اشیاءکو پس پشت ڈال دیاہے تاکہ جان چھوٹ جائے اب کوئی حقیقی مجبوری آن پڑی ہے آپ کا کوئی بچہ بیمار ہوگیا یا آپ خود بیمار ہوگئے‘ پیسے آپ کے پا س نہیں۔ اب آپ پریشانی میں اللہ سے تو رجوع کریں گے نہیں کیونکہ شیطان لعین آپ کو ایسا کرنے ہی نہیں دے گا فوراً آپ کا دھیان آپ کے پاس موجود کارڈ پر جائے گا اور آپ فوراً اسے استعمال کریں گے۔ پھریہ سوچ کر اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ یہ اس کی ہی کرم نوازی تھی کہ آپ کے پا س یہ سہولت موجود تھی ورنہ آپ اپنے بچے کو نہ بچا سکتے )نعوذ باللہ(۔ اب آپ کے دونوں کارڈ پوری طرح استعمال ہوچکے ہیں اور آپ کے مہینے کی کم از کم قسط 4500 بنتی ہے جبکہ تنخواہ دس ہزار ہے۔ اب سوچیں کہ کیا ہوگا اس وقت ایک اور شیطان کے نمائندے کا فون آئے گا کہ یہ ہمارا کارڈ بنوالیں اور رقم ادھر منتقل کردیں‘ شرح سود کم ہوگی اس طرح یہ شیطانی چرخہ مسلسل چلتا رہے گا اور آپ کے پاس سوائے بربادی کے کوئی راستہ نہ ہوگا یعنی دنیوی اور دینی دونوں طرح کی بربادی۔ میرے محترم بھائیو اور بہنو! آپ لوگ اب تک یقینا جان چکے ہوں گے کہ میں نے کیوں اس کریڈٹ کارڈ کو یہود و نصاریٰ کا طلسمی پھندہ کہا تھا۔ جی ہاں! یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ہی ہے کہ اس ملک کے بچے بچے کو سودی نظام میں جکڑ کر مکمل طور پر تباہ و برباد کردیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی اس مذموم کوشش کی تکمیل کے لئے انہوں نے ہر ممکن تدبیر اختیار کی ہے۔ پہلے پہل تو یہ کارڈ صرف بڑے بڑے کاروباری حضرات جن کے بینک میں بڑ ے بڑے کھاتے ہوتے تھے ان کو لالچ دے کر جاری کیاجاتا تھا۔ دوسرے مرحلے پر اس میں وہ نوکری پیشہ لوگ شامل کئے گئے جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے اور ان کی تنخواہیں ہزاروں میں تھیں۔پھر کم تنخواہوں والے لوگ بھی اس میں شامل کئے جانے لگے اور تنخواہ کی حد کم کرنا شروع کردی اور کم کرتے کرتے اس کو صرف آٹھ ہزار تک لے آئے یعنی اب جس کی تنخواہ آٹھ ہزار ماہانہ ہو‘ وہ بھی یہ کارڈ بنوا سکتا ہے جس کی لمٹ اس کی تنخواہ کے تین سے چار گنا ہوگی۔ اور یہ اقدامات کرنے سے بھی جب ان یہودیوں کے ٹارگٹ پورے نہیںہوئے تو انہوں نے ا س کی فیس بالکل ختم کردی یعنی مکمل طور پر فری کردیا تاکہ ہر بندہ اور بندی ایک دفعہ کم از کم بنوا ضرور لے۔ اس مقصد کے لئے سب سے پیش پیش ہمارا ایک نام نہاد اسلامی بینک ہے جو بینک الفلاح کے نام سے ہمارے ملک میںکام کر رہا ہے۔ اس بینک کے بہت جلدی مقبول ہونے اور مشہورہونے کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی کہ اس نے سب سے پہلے کریڈٹ کارڈز پر ہر طرح کی فیس ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور پھر اس کی دیکھادیکھی آہستہ آہستہ باقی بینکوں نے بھی یہ فیس ختم کردی۔ کیوں نہ کرتے ا سلئے کہ یہ ان کی مجبوری تھی سب لوگ بینک الفلاح کا کارڈ بنوا رہے تھے اور ان کے بینک کا بزنس متاثر ہو رہا تھا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے بعد بھی ان مردودوں کی تسلی نہ ہوئی کیونکہ کارڈ تو کافی تعداد میں لوگ بنوا رہے تھے لیکن اس کو استعمال کرنے کی شرح ابھی ان کے اہداف کے مطابق نہ تھی۔ لہٰذا اب یہ کام کیاگیا کہ کارڈز استعمال کرنے پر کئی طرح کے لالچ رکھے گئے۔ مثلاً جب کوئی کارڈ استعمال کرے گا تو ہر 50 روپے خرچ کرنے پر اسے ایک پوائنٹ ملے گا اور یہ پوائنٹ بعد میں اکٹھے کرکے وہ شخص مختلف چیزیں مفت بینک سے حاصل کر سکتا ہے ۔اس مقصد کے لئے بینک ایک کتابچہ جاری کرتے ہیں جس میںمختلف چیزیں پیش کرکے ان کے لئے پوائنٹس مختص کئے گئے ہیں۔ مثلاً ایک ایمر جنسی لائٹ کے لئے 2000 پوائنٹ مختص کئے گئے ہیں یعنی ایک شخص کارڈ کے ذریعے خریداری مسلسل کرتا رہے اور جب اس کی خریداری کی حد ایک لاکھ پہنچ جائے گی تو اس وقت تک اس کے پا س2000 پوائنٹ جمع ہوجائیں گے جس سے وہ یہ ایمر جنسی لائیٹ بینک کو فون کرکے فری حاصل کر سکے گا‘ ا س کے علاوہ بھی بہت سی شیطانی سکیمیں اس میں شامل کی گئی ہیں۔ دین کو ا س میں شامل کرنے کے لئے عمرے اور حج کی ٹکٹ بذریعہ قرعہ اندازی آفر کئے گئے ہیں۔ یعنی ایک حد مقرر کردی گئی ہے کہ جو اتنے دن میں اس حد تک کارڈ سے خریداری کرے گا‘ وہ اس قرعہ اندازی میں شمولیت کا اہل ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ مزید سنئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! اس پر بھی ان لعینوں کا دل نہیں بھرا تو اب بینک الفلاح نے یہ کام کیا ہے کہ وائف کارڈ )Wife card( سٹوڈنٹ کارڈ )Student card( سرونٹ کارڈ )servent card( وغیرہ کے نام سے مختلف کارڈز جاری کئے ہیں۔جو کہ جاری تو اوپر درج لوگوں کے نام پر ہوتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک بندے کی جاری کردہ حد میں سے ہی اس کے بیوی‘ بچوں اور ملازموںکو جاری کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ایک کاروباری شخص ہیں اور آپ نے اپنا کارڈ بنوایا ہے جس کی حد 2 لاکھ تک ہے۔ اب آپ اپنی بیوی یا بچے کو سالگرہ پر یا ویسے ہی تحفہ دینا چاہتے ہیں تو آپ بینک سے کہیں گے کہ میرے بچے کے نام کا ایک کارڈ بنادو جس کی حد آپ خود بینک کو بتائیں گے۔ مثلاً آپ نے کہا کہ 20 ہزار کی حد کا کارڈ میرے بیٹے کو بنادو اور 50 ہزار کی حد تک کارڈ میری بیوی کوبنادو اور میں چونکہ بہت مصروف ہوں اور گھر کا سودا وغیرہ نہیں خرید سکتا اس لئے 20 ہزار کی حد تک کاکارڈ میرے ملازم کوبنادو‘ یہ خود ہی سودا وغیرہ خرید لیا کرے گا۔ پھریہ سب اپنے اپنے کارڈاستعمال کریں گے اور ا س کا بل آپ کو آئے گا اور ادا کرنا پڑے گا۔ اب سوچیںایک بچہ جو سٹوڈنٹ ہے اور سکول یا کالج میں پڑھ رہا ہے‘ اسے جب اس طرح کی سہولت مل جائے گی تو وہ بے دریغ خرچ کرے گا کیونکہ اس نے کمائے نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس کو ابتدا سے ہی کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کی عادت پڑ جائے گی اور جب وہ خود عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو کس طرح اس سے کنارہ کرے گا۔ یہی حال باقی مذکورہ بالا لوگوں کے ساتھ بھی ہوگا۔ الغرض میرے پیارے بھائیو اور بہنو! جتنی قباحتیں آپ کہیں گے‘ میں اس سے کہیں زیادہ آپ کو گنوا دوں گالیکن فائدہ اگر آپ کہیں کہ ایک گنوا دو تو شاید میرے لئے ایسا ممکن نہ ہو سکے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔ سب سے بری بات تو یہ ہے کہ یہ مکمل طو رپر حرام ہے کیونکہ یہ مکمل سود ہے اور اللہ سے جنگ ہے۔ لہٰذا اس میں سے فائدہ ڈھونڈنے کی بات کرنا بعینہ ایسے ہی ہے جیسے پیشاب میں سے مشروب کا کوئی قطرہ ڈھونڈنا۔ اس لئے میں آخر میں آپ سب بھائی‘ بہنوں سے گزارش کرتاہوں کہ اللہ کے لئے یہود و نصاریٰ کے اس طلسمی پھندے کو سمجھئے اور اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کیجئے اور دوسرے بہن‘ بھائیوں کو بھی اس سے بچائیے۔ اگریہ مضمون پڑھ کر میرا کوئی بھائی یا بہن اس منحوس شیطانی چکر سے نکل آئے گا تو میں اسے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور احسان سمجھوں گا اور یہ التجا کروں گاکہ اپنے تمام بہن بھائیوں سے کہ مجھے اپنی دعاﺅں میںیاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں اپنے دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ )آمین(
0
Shahjahn Ashraf Gujjar. Bhakkar
No comments:
Post a Comment